تاثرات حضرت مولانا محمد عارف صاحب قاسمی

*ایک روشن تجربہ*

بطور ممتحن “ای دارالعلوم الاسلامیہ دیوبند” کے آن لائن درسِ نظامی امتحان میں شرکت

الحمدللہ ثم الحمدللہ! عصرِ حاضر کی اس تیزرفتار دنیا میں جہاں آن لائن تعلیم محض رسمی اور سطحی مواد کی ترسیل تک محدود ہوچکی ہے، وہیں “ای دارالعلوم الاسلامیہ دیوبند” نے علم و حکمت کی اس عظیم وراثت کو نہ صرف محفوظ رکھا هے؛ بلکہ اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ایک ایسے مثالی نظام میں ڈھالا ہے جو معیار، وقار، اخلاص اور روحانیت کا حسین امتزاج ہے۔ یہ ادارہ جدید ذرائع کو اختیار کرتے ہوئے بھی روایتی دینی تعلیم کی روح سے رشتہ منقطع نہیں ہونے دیتا اور یہی اس کا امتیاز ہے۔
خاکسار کو اس ادارے کے حالیہ آن لائن امتحان میں بطور ممتحن شرکت کا شرف حاصل ہوا، جو میرے لیے محض ایک رسمی ذمہ داری نہیں؛ بلکہ ایک قلبی و ذہنی تجربہ، ایک روحانی تجلی، اور ایک علمی ضیافت تھی۔

*امتحانی دائرہ:*
جن کتابوں کا زبانی امتحان لینے کا موقع ملا، ان میں شامل تھیں:
علم الصیغہ
القدوری (فقہ)
القراءۃ الواضحۃ (حصہ اول)
مشکٰوۃ الآثار
ترجمہ قرآن (پارہ عم)

طالبات کی علمی تیاری، ان کے لب و لہجے کی متانت، اور فہم و فراست سے بھرپور جوابات نے میرے دل میں شکر اور مسرت کی کیفیت پیدا کر دی۔ ان کے جوابات فقط رٹے پر مبنی نہیں تھے، بلکہ وہ شعوری فہم، تدبر اور غور و فکر کے آئینہ دار تھے۔ یقیناً یہ کامیابی اساتذۂ کرام کی شبانہ روز محنت، ادارے کے منظم نصاب اور تربیت یافتہ ماحول کا ثمرہ ہے۔

 *علمی معیار و صلاحیت:*

امتحان کے دوران جو چیز سب سے زياده نمایاں نظر آئی، وہ طالبات کی فکری پختگی اور علمی گہرائی تھی۔ ان کے جوابات میں ترتیب، وضاحت اور مفہوم کی مکمل گرفت اس بات کا مظہر تھی کہ یہ ادارہ صرف تعلیم نہیں دے رہا، بلکہ فہم، شعور، تربیت اور کردار سازی کی ایک بامقصد تحریک چلا رہا ہے۔ بلاشبہ یہ روحانی معمار، ایک علمی نسل کی تیاری میں مصروفِ عمل ہیں۔

 *ادارے کی قیادت و رہنمائی:*

كسي ادارے كي كاميابی کی بنياد وه اخلاص، فكر اور روح هے، جس پر اداروں كا قيام عمل ميں آتا ہے، “ای دارالعلوم الاسلامیہ دیوبند” کی زمام کار مخلص اور ممتاز عالم دين جناب مولانا مفتی محمد نوشاد نوری قاسمی صاحب (استاذ دار العلوم وقف ديوبند وسب ايڈيٹر عربی مجله وحدة الامة ديوبند) كے ہاتھ ميں ہے، موصوف اپنی علمی صلاحيت، متانت ووقار، زمانہ شناسی اور تعليمی افكار كی وجہ سے اپنے معاصرين ميں بے حد ممتاز ہيں، وه دارالعلوم وقف دیوبند کے نقیبِ ادب و فقہ بھی ہیں اور نسل نو كے بہترین مربی بھی ہيں، درجنوں عربی واردو كتابيں ان كے قلم سے نكل كر علمی حلقوں ميں مقبول ہوچكی ہيں، متعدد درسی كتابيں كئی اداروں میں داخل نصاب بن چکی ہيں، ان کی سرپرستی میں یہ ادارہ نہ صرف مضبوطی سے قدم بڑھا رہا ہے، بلکہ ہر گوشہ ان کی تربیت، اخلاص، تدبر اور تجربے کی خوشبو سے مہک رہا ہے۔ ان کی قیادت میں ادارہ علم و عمل کے ایک روشن مینار کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ حضرت موصوف نے اساتذه كے انتخاب ميں بھی بڑی دقت نظری سے كام ليا ہے، ان كے تمام اساتذه انتہائی باصلاحيت اور محنتی ہیں اور سبھی اپنے اپنے ميدانوں ميں نماياں ہيں، محنت اور اخلاص كي آميزش سے ہی يہ اداره مقبوليت اور معيار كي راه پر گام زن ہے۔
*امتحانی نظام کی تنظیم و انفرادیت:*

امتحان کے دوران جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ اس کا نہایت منظم، مربوط اور مثالی انتظام تھا۔ ایک سیشن میں طالبات کی تعداد تقریباً ستر کے قریب تھی، اور ظاہر ہے کہ اتنی بڑی تعداد کا انفرادی زبانی امتحان لینا بظاہر ایک دشوار کام ہے۔ لیکن ادارے کی انتظامیہ نے اس چیلنج کو بھی تدبر اور حکمتِ عملی سے حل کیا۔
انتظام یہ تھا کہ بیک وقت تین مختلف گروپس میں تین الگ ممتحن آن لائن اپنے اپنے روم( _*breakout room*_ ) میں طالبات کا امتحان لے رہے تھے۔ ہر گروپ میں مکمل خاموشی، مکمل رازداری اور نظم و نسق کا عالم تھا۔ کسی ممتحن کی آواز دوسرے گروپ تک نہیں پہنچ سکتی تھی، نہ ہی کسی طالبہ کا جواب دوسرے گروپ میں منتقل ہوسکتا تھا۔ ہر “ورچوئل روم” میں ایک طرف ممتحن، دوسری طرف آفس کی نگران ٹیم، اور پھر وہ طالبہ موجود ہوتی جس کا امتحان لیا جا رہا ہو — اس کے ساتھ اگلی طالبہ بھی تیار رہتی، مگر وہ مائیک بند اور ویڈیو آف رکھ کر منتظر ہوتی۔
یہ ترتیب نہ صرف امتحان کی شفافیت کو یقینی بناتی تھی بلکہ آن لائن نظام میں جو عمومی سستی، بے ترتیبی یا بے اعتنائی کا اندیشہ ہوتا ہے، وہ سب اس میں ناپید تھی ۔ بلاشبہ یہ تربیت یافتہ ٹیم، تجربہ کار قیادت، اور جدید ٹیکنیکل بصیرت کا ثمره ہے — جسے دیکھ کر دل نے بے ساختہ کہا:
“یہ ہے آن لائن تعلیم کا مثالی نمونہ!”
روحانی تاثرات و دعائیہ کلمات:

اس امتحانی سفر نے مجھے علم و عرفان کے ایک ایسے گلزار سے گزارا جس کی خوشبو دیر تک ذہن و قلب کو معطر کرتی رہی۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں محض ایک ممتحن نہیں، بلکہ ایک طالب ہوں — جو ادارے کے نظام، اساتذہ کی روحانی بصیرت، اور طالبات کی جستجو سے سیکھ رہا ہے۔ میرے دل کی گہرائیوں سے اعتراف اُبھرتا ہے کہ آج کے آن لائن تعلیمی میدان میں ایسا جامع، منظم، مہذب، اور پُرخلوص ادارہ شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے۔

صدائے دل:*
دل سے دعا نكل رہی ہے كہ:
یا اللہ! “ای دارالعلوم الاسلامیہ دیوبند” کو تاقیامت دینِ حق کی سربلندی کا ذریعہ بنا
اس کے اساتذہ، منتظمین، طالبات و معاونین کو دنیا و آخرت کی سعادتوں سے سرفراز فرما
اسے علم، اخلاص، تقویٰ، اور تربیت و دعوت کا عالمی مرکز بنا دے
آمین یا رب العالمین

✍️ محمد عارف قاسمی
استاذ دارالعلوم عربک کالج، شاہی جامع مسجد میرٹھ

Scroll to Top